قرآن حکیم کی رو سے قبائل و شعوب باہمی تعارف کا ذریعہ ہیں۔ لوگ اپنے شجرہ نسب کے تحفظ کے داعی رہے ہیں۔ عربوں کے ہاں نہ صرف قبیلوں بلکہ گھوڑوں کے شجرہ نسب کو بھی محفوظ رکھتے تھے۔ برصغیر کی قدیم تہذیب تو مبنی ہی ذات پات کی تقسیم پر تھی۔ جس کی وجہ سے نقل مکانی کر کے برصغیر میں آباد ہونے والوں کا ذوق تحفظ شجرہ نسب مزید بڑھ گیا۔
بعض قبائل جن کو بوجوہ سماجی احترام ذیادہ ملتا رہا ان میں دیگر برادریوں کے لوگ جن کا سماج میں مناسب مقام نہیں تھا بکثرت شامل ہوتے رہے۔ تاہم اس کی روک تھام کے لیے اقوام و قبائل اپنے شجرہ نسب کے تحفظ کا اہتمام کرتے رہے۔
کہوٹ قریش جو حضرت علی علیہ السلام کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ رضی اللہ تعالی کی اولاد سے ہیں عراق سے خراسان اور پھر ترکستان سے ہوتے ہوئے بالآخر پنجاب میں آۓ۔ کہوٹ سے ساتویں پشت دھونا کو بابر کی طرف سے دھنی کی جاگیر دی گئی۔ ان کی اولاد اس علاقے میں آباد ہو گئی لیکن بارانی زمینوں اور ناسازگار موسموں کے باعث دوسرے علاقوں کی طرف منتقل بھی ہوتے رہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی عرب روایات کے مطابق اپنے شجرہ نسب کا تحفظ کیا۔
جناب جاوید کہوٹ ان چند افراد میں سے ہیں جو کہوٹ قریش شجرے کی تحقیق کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے سالہاسال کی محنت اور جستجو کے بعد کہوٹ نامہ مرتب کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی
یونیورسٹی، ٹیکسلا HIT